حرفِ آغاز

مرکزی مدرسہ بورڈ کی تجویزاور دارالعلوم دیوبند

حبیب الرحمن اعظمی

 

وطن عزیز کو سامراج کے پنجہٴ استبداد سے رہائی دلانے والے ملک کے معماروں نے جب آزاد ہندوستان کا آئین وضع کیا تو بلا امتیاز ذات ونسل اور زبان ومذہب ملک میں بسنے والی ساری اکائیوں کے زندگی سے متعلق جملہ حقوق کا بھرپور تحفظ کیا اور مذہب، زبان، نسل کی بنیاد پر کسی طرح کے فرق کو روا نہیں رکھا جس سے ان کی وسعت قلبی، فکرونظر کی بلندی اور ملک و قوم کے حق میں بے لوث جذبہٴ اخلاص ومحبت کا پتہ چلتا ہے۔

لیکن انھیں کے پیرو اور نام لیوا جب مسند اقتدار پر براجمان ہوئے تو اپنی تنگ نظری اور تنگ ظرفی کی بناء پر دستور کے تحفظات کو نظر انداز کردیا ہمارے ملک کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ آج تک کی ساری قومی حکومتیں ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت (جو صحیح معنوں میں دوسری اکثریت ہیں) کے ساتھ نہ صرف امتیازی سلوک کرتی چلی آرہی ہیں بلکہ ان کی زندگی کی راہوں میں اڑچنیں پیداکرتی رہی ہیں۔ ملک کے اقتدار پر قابض اس گروہ کی غفلت شعاریوں بلکہ قانون وانصاف سے عاری اس ظالمانہ رویہ کو خود حکومت کی قائم کردہ سچر کمیٹی نے اس طرح طشت از بام کردیا ہے کہ اسے کسی حیلہ و تدبیر سے چھپایا نہیں جاسکتا ہے۔

کون نہیں جانتا کہ اس جمہوری سیکولر ملک میں اپنے مذہب، زبان، کلچر اور تہذیب و ثقافت کی حفاظت کے لیے اپنے ادارے قائم کرنا ملک کے ہر باشندہ کا دستوری حق ہے۔ اپنے اسی حق کی بنیاد پر مسلمانوں نے اپنے مدارس اور مذہبی ادارے قائم کررکھے ہیں مگر ہماری قومی حکومتیں ان مدارس کو نگاہ غلط انداز سے دیکھنے کی عادی ہوگئی ہیں اور مسلمانوں سے ان کے اس آئینی حق کو چھین لینے کے لیے ہر طرح کی خلاف قانون اورناجائز تدبیریں کرتی رہتی ہیں۔ انھیں تدبیروں میں ایک نئی تدبیر ”مرکزی مدرسہ بورڈ“ کے نام سے ”مرکزی وزارت تعلیم و فروغ انسانی وسائل “ کی جانب سے کی جارہی ہے۔

اب تک جھوٹ، فریب، جبر، ظلم اور خلاف قانون وا ٓئین فیصلوں کے ذریعہ ان مدارس پر قدغن لگانے اورانھیں بے جان بنادینے کی ناکام کوششیں کی جاتی رہی ہیں مگر اب شاطران سیاست نے سیم وزر کی لالچ کے اسلحہ سے مدارس پر شب خون مارنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ یہ ایک ایسا دام ہم رنگ زمیں ہے جس کا صحیح ادراک بادی النظر میں نہیں ہوگا اس لئے خدانخواستہ اگر مدارس اس میں پھنس گئے تو پھر کبھی اس جال سے آزاد نہیں ہوسکیں گے، جس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ دین ومذہب کے یہ سرچشمے ہمیشہ کے لیے خشک ہوجائیں گے اور اس کے بعد ملت اسلامیہ ہند کا انجام کیاہوگا اس کے تصور سے روح ایمانی تھرّا جاتی ہے۔

وقت کا تقاضا تھا کہ ”مرکزی مدرسہ بورڈ“ اوراس کے مالی وظائف کے پردے میں چھپی تباہ کاریوں کو پورے طور پر برہنہ کیا جائے تاکہ اصل مدارس اس سے اپنے دامن کو بچائے رکھیں۔ چنانچہ اسی تقاضا کے تحت دارالعلوم دیوبند نے طے کیاکہ اوّل وہلہ میں ایک مختصرنمائندہ اجلاس بلایا جائے اس تجویز کے تحت ۱۳/۱۴/مئی کو دارالعلوم دیوبند کی دعوت پر یہ اجلاس انعقاد پذیر ہوا۔ جس میں ملک کی ساری ریاستوں سے تین ہزار مدارس کے تقریباً ساڑھے تین ہزار نمایندے شریک ہوئے۔ اگر دعوت نامہ کے اجراء میں مزید توسع اختیار کیا گیا ہوتا تو مجمع اس سے کئی گنا زیادہ ہوتا۔ علاوہ ازیں ملک کی اہم مسلم تنظیموں کے ذمہ دار حضرات نے بھی دارالعلوم دیوبند کے ساتھ اس مسئلہ میں یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اجلاس میں شرکت کی اور دارالعلوم کے موقف کی مکمل تائید و تصویب کی بالخصوص اس موقع پر حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب قدس سرہ کے جانشین وخلف الصدق حضرت مولانا محمد سالم صاحب کی تشریف آوری اور دارالعلوم دیوبند کے اسٹیج سے ان کے خطاب نے شرکائے اجلاس کے اندر ایک تازہ زندگی پیدا کردی۔

اپنی پیرانہ سالی اور عوارض کے ہجوم کے باوجود حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم اجلاس کے ہر چھوٹے بڑے امور کی نگرانی خود کررہے تھے۔ آپ کا خطبہ صدارت بڑا فکر انگیز اور اپنے موضوع پر اس قدر جامع تھا کہ بجا طور پر اسے ایک دستاویز کہا جاسکتا ہے۔ بعد میں جس قدر تقریریں ہوئیں کہنا چاہئے کہ اسی خطبہ کی توضیح و تشریح اور تائید و تصویب سے متعلق رہیں۔

ایک خاص بات جو اجلاس میں محسوس کی گئی وہ یہ تھی کہ مدارس کے حق میں سرکاری مرکزی مدرسہ بورڈ کی مضرت پر گویا کہ تمام شرکاء کو شرح صدر ہوگیا تھا کیونکہ اس سلسلے میں کسی نے کوئی ادنیٰ شبہ بھی پیش نہیں کیا جسے تائید غیبی ہی کہا جائے گا۔ نیز اس طرح کے اجلاسوں میں عام طور پر جوش و خروش کا مظاہرہ ہوتاہے اس اجلاس میں جوش پرہوش غالب تھا اور مقررین حضرات نے بڑے پروقار انداز میں زیرمسئلہ پر غور وفکر کی دعوت دی اور اس کے نتائج سے آگاہ کیا۔

آخری اجلاس میں تجاویز پیش ہوئیں جو بغیر کسی ترمیم و تنسیخ کے متفقہ طورپر منظور کرلی گئیں۔ اس طرح ملک کے مقتدرعلماء کا اتفاق ہوگیا کہ یہ سرکاری مدرسہ بورڈ مدارس دینیہ کے لئے قطعی طور پر مفید نہیں بلکہ انتہائی نقصان دہ اور مضرت رساں ہے جس سے پرہیز اور اجتناب ہی میں مدارس کے لیے خیر وفلاح ہے۔ ذیل میں مرکزی مدرسہ بورڈ سے متعلق منظور شدہ تجویز کا متن پیش کیا جارہا ہے۔ بقیہ تجاویز مفصل رپورٹ کے ضمن میں ملاحظہ سے گذرے گی۔ انشاء اللہ

تجویز

مرکزی مدرسہ بورڈ کی تجویز، مدارس اسلامیہ کی حقیقی روح پر سنگین حملہ

ہندوستان کے مدارس اسلامیہ عربیہ کا کل ہند اجلاس عام، مرکزی حکومت کی جانب سے مدرسہ بورڈ قائم کئے جانے کی تجویز کو حددرجہ تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے، اور نہایت قوت وصراحت کے ساتھ اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ یہ تجویز، مدارس اسلامیہ کے بنیادی مقاصد کے منافی اور ان کی تعلیمی سمت سفر کو بدلنے اور فکری آزادی پر قدغن لگانے کی ایک خطرناک کوشش ہے، جسے قبول نہیں کیا جاسکتا ہے، اس لئے کہ مدارس کا نصب العین، فروغ دین، تحفظ قرآن وسنت، اشاعت علوم دینیہ اور ایسے مخلص رجال کار تیار کرنا ہے، جو اگلی نسلوں تک اس عظیم امانت کو منتقل کرسکیں۔

ظاہر ہے کہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے وہی طریقہٴ کار مفید وکارآمد ہوسکتا ہے جو اسلاف سے وراثتاً ہمیں ملا ہے اور صدیوں کا آزمودہ ہے جس کے تحت مدارس اسلامیہ اس سیکولر ملک میں تحفظ علوم دین کی عظیم خدمت انجام دینے کے ساتھ ایسے تاریخ ساز مردان کار تیار کرنے میں کامیاب رہے ہیں جنھوں نے نہ صرف ملت اسلامیہ کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا بلکہ امن پسند، ایماندار، فرض شناس اور محب وطن شہری کی حیثیت سے تمام ہی اہل وطن کے لئے مشعل راہ کا کردار ادا کیا۔

اس لئے یہ ملک گیر اجلاس محسوس کرتا ہے کہ مدارس اسلامیہ کو اپنے مذکورہ مقاصد عالیہ کے حصول کے لیے، پہلے سے زیادہ اپنے اکابر کے منہاج پر استقامت کے ساتھ سرگرم عمل ہوجانا چاہئے اور ان پر لازم ہے کہ وہ مدرسہ بورڈ اور اس قسم کی ہرایسی کوشش کو مسترد کردیں جس کا مقصد ان کو علم و عرفان کی کارگاہوں کے بجائے روزی روٹی مہیا کرنے والے کارخانوں میں تبدیل کرکے معنوی موت سے ہمکنار کرنا ہے۔

اسی کے ساتھ مدارس کا یہ عظیم اجتماع مرکزی حکومت سے اپیل کرتا ہے کہ وہ مذہبی تعلیم و تبلیغ سے متعلق، اقلیتوں کو دستور میں دئے گئے حقوق کا صحیح معنوں میں احترام کرے اور اس تجویز کو واپس لے کر اپنے سیکولر پسندوجمہوریت نواز ہونے کا عملی ثبوت دے اور مدارس اسلامیہ کو اپنا نام نہاد مالی تحفہ دینے کے بجائے سچرکمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں اقلیتوں کے ان لاکھوں بچوں کی تعلیم کا انتظام کرے جو ہر قسم کی تعلیم سے محروم ہیں نیز اقلیتوں کے عصری تعلیمی اداروں کو مزید مستحکم وفعال بنانے کی جانب خصوصی توجہ دے اور جن مقامات میں اس قسم کے ادارے نہیں ہیں وہاں نئے ادارے قائم کرے نیز مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے کے لئے ضروری اقدامات کرے۔

مدارس دینیہ کا یہ عظیم ملک گیر اجتماع یہ محسوس کرتا ہے کہ کوئی بھی ایسی صورت مدارس کے لیے ناقابل برداشت ہوگی، جس سے ان مدارس کی خودمختار حیثیت اورآزادی مجروح ہو، اور صدیوں کے آزمودہ طریقہٴ کار میں رخنہ پڑے کیوں کہ ایسی کوئی بھی مداخلت آگے چل کر مدارس کو ان کے اصل دینی مقاصد سے ہٹادے گی اور ان کی تعلیمی روح اور ڈھانچہ کو درہم برہم کردے گی، ان وجوہ سے یہ اجتماع مرکزی مدرسہ بورڈ کی تجویز کو مسترد کرتا ہے۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ6، جلد: 91 ‏، جمادی الاولی 1428 ہجری مطابق جون2007ء